Wednesday, May 17, 2017

طورغر کے پہاڑی گاؤں کی ایک بےنام زبان

  • 21 فروری 2017

صوبہ خیبرپختونخوا کے برف سے ڈھکے کوہستانی سلسلے طورغر اور ضلع مانسہرہ کے سنگم پر ایک پہاڑ کی چوٹی پر ایک ایسا گاؤں آباد ہے جو اب سے کچھ عرصہ پہلے تک آس پاس کے علاقوں سے کٹا ہوا تھا۔
اس جغرافیائی تنہائی نے اس گاؤں کو ایک انفرادیت عطا کی ہے۔ یہاں کے رہنے والے ایک ایسی زبان بولتے ہیں جو دنیا بھر میں اور کہیں نہیں بولی جاتی۔
اس گاؤں کا نام تو ڈنہ ہے، اس زبان کا نام کیا ہے؟ دوسرے لوگوں نے اسے تراوڑہ، منکیالی وغیرہ جیسے نام دے رکھے ہیں، لیکن خود اس کے بولنے والے اسے صرف 'اپنی زبان' کہتے ہیں۔
ماہرِ لسانیات ڈاکٹر عظمیٰ انجم نے اس زبان پر تحقیق کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ دردی سلسلے کی زبان ہے اور اس کا رشتہ کشمیری اور کوہستانی زبانوں سے ہے۔ وہ کہتی ہیں: 'یہ کسی بھی زبان سے 80 فیصد مماثلت نہیں رکھتی۔ اس لیے ہم دعوے سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک منفرد زبان ہے، اس کی اپنی صرف و نحو ہے، اپنی صوتیات ہیں اور اپنا لسانی نظام ہے۔'
ڈاکٹر عظمیٰ کی تحقیق کے مطابق اس زبان کے بولنے والوں کی کل تعداد چار سو کے لگ بھگ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر کی زبانوں کے کیٹلاگ ایتھنولاگ میں 7079 زبانیں درج ہیں، لیکن اس میں بھی اس زبان کا اندراج نہیں ہے۔
اتنی چھوٹی زبان، جو دوسری زبانوں میں گھری ہوئی ہے، اس کا مستقبل کیا ہے؟
یہاں کے باسی اور سکول کے استاد محمد پرویز کہتے ہیں: 'آنے والی ایک دو نسلوں کے بعد یہ زبان بالکل ختم ہو جائے گی۔ ہمارے گاؤں میں بہت سارے گھر ایسے ہیں جنھوں نے باہر سے شادیاں کر رکھی ہیں، وہ عورتیں پشتو یا ہندکو بولتی ہیں۔ ان کے بچے بھی اپنی ماں ہی کی زبان بولتے ہیں، اس لیے 'اپنی زبان' کے بولنے والوں کی تعداد ہر سال گھٹتی چلی جا رہی ہے۔'
محمد پرویز نے بتایا کہ خود ان کی دادی، جن کا حال ہی میں 90 برس کی عمر میں انتقال ہوا، باہر کے گاؤں سے آئی ہوئی تھیں اور ان کی اپنی زبان ہندکو تھی۔ وہ 'اپنی زبان' کی کسی حد تک سمجھ تو لیتی تھیں، لیکن ساری زندگی اسے بولنا نہیں سیکھ سکیں۔
پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہونے کی وجہ سے چند سال پہلے تک ڈنہ تک رسائی بہت مشکل تھی اور یہاں کے لوگوں کو سودا سلف لانے کے لیے پہاڑ سے پیدل نیچے اتر کر دس کلومیٹر دور اوگی بازار جانا پڑتا تھا۔ لیکن اب پکی سڑک اس گاؤں کے بالکل قریب تک پہنچ گئی ہے۔ یہ گاؤں والوں کے لیے تو اچھی خبر ہے، لیکن 'اپنی زبان' کے لیے اتنی اچھی خبر نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب گاؤں والوں کا بقیہ علاقوں سے ربط و اختلاط بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے 'اپنی زبان' دوسری زبانوں سے خلط ملط ہو رہی ہے۔
ہم نے ڈنہ میں چلتے پھرتے محسوس کیا کہ بڑے بوڑھوں کی باتیں تو بالکل سمجھ میں نہیں آتیں، لیکن بچے جو زبان بولتے ہیں، اس میں اردو اور ہندکو کے الفاظ کی بھرمار کی وجہ سے اسے تھوڑی سی کوشش سے سمجھا جا سکتا ہے۔
اس زبان میں کوئی ادب نہیں، نہ ہی کوئی تحریر ملتی ہے۔ محمد پرویز نے کہا کہ 'اپنی زبان' میں دس سے 15 ایسی آوازیں ہیں جو اردو رسم الخط سے ادا نہیں ہو سکتیں۔ انھوں نے 'آدمی' کے متبادل لفظ 'موژ' کی مراد دیتے ہوئے کہا کہ اس میں جو ژ ہے وہ نہ تو ٹیلی ویژن والا ژ ہے اور نہ ہی ژالہ باری والا۔ اس لیے اس کے لیے نیا حرف وضع کرنا پڑے گا۔
اسلام آباد کی ایئر یونیورسٹی کی فیکلٹی آف سوشل سائنسز کی ڈین پروفیسر وسیمہ شہزاد نے بی بی سی کو بتایا کہ 'ایسا کوئی سرکاری محکمہ نہیں ہے جو 'اپنی زبان' جیسی چھوٹی زبانوں کے تحفظ پر کام کر رہا ہو۔ ہمارے پاس سرکاری سطح پر زبانوں کے بولنے والوں کا ریکارڈ نہیں ہے جس کی وجہ سے ان زبانوں کے بارے میں کسی کو معلومات ہی نہیں ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ جلد ہی ملک میں مردم شماری ہو رہی ہے۔ اگر حکومت مردم شماری کے فارم میں زبان کا خانہ بھی شامل کر لے تو ہمارے پاس بہت کارآمد ڈیٹا اکٹھا ہو جائے گا جس کی بنیاد پر آئندہ پالیسی سازی کی جا سکے گی۔
21 فروری کو دنیا بھر میں مادری زبانوں کا دن منایا جا رہا ہے جس میں بہت سی بڑی زبانوں کے سلسلے میں تقریبات منعقد ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں میڈیا بھی خوب بڑھ چڑھ کر کردار ادا کر رہا ہے اور مختلف زبانوں کے بارے میں پروگرام دکھا رہا ہے۔
لیکن اس تمام تر میلے میں 'اپنی زبان' کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔ یہ ایسی زبان جس کا کوئی نام نہیں، کوئی ریکارڈ نہیں، کسی فہرست میں اندراج نہیں، اور جسے چاروں طرف سے دوسری زبانوں کی یلغار کا سامنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ زبان کتنا عرصہ زندہ رہ پائے گی؟
Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-39041537

No comments:

Post a Comment